انڈین میچ میکنگ کے نام سے ایک نیٹ فلکس شو نے ارینج میرج کے کلچر سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ شو تو انڈین ہے لیکن
چونکہ پاکستانی رشتہ کلچر بھی بر صغیر کا دیا ہوا تحفہ ہےتو اس لیے اس شو میں ہونے والی باتوں کو پاکستان پر بھی اپلائی
کیا جا سکتا ہے
ارینج میرج ایک خوفناک کلچر ہے جو کہ اچھے بھلے انسان کو نفسیاتی مریض بنانے کے لیے کافی ہے۔ اس کلچر میں کوئی انساف نہیں
ہے۔ یہاں رشتے پتلے، چھوٹے، لمبے، کالے، گورے ہونے کی بنیادوں پر ہوتے ہیں۔ حالانکہ آج کل لو میرج اور پسند کی شادی کا دور ہے۔
پسند کی شادی کو آسان بنانے کے لیے سوشل میڈیااور شادی۔پی کے جیسے بہت سے پلیٹ فارمز موجود ہیں۔ لیکن ہمارے خاندانوں
میں جو ابھی بھی گاوں کی روایتی زندگی سے جڑے ہوئے ہیں وہ ارینج میرج کے علاوہ شادی کے کسی اور طریقے میںدلچسپی نہیں
لیتے۔ گاوں میں ارینج میرج کے لیے رشتہ دیکھنے جانے کا عمل قدر آسان ہے بہ نسبت شہر کے۔ گاوں میں سب لوگ ایک دوسرے
جانتے ہوتے ہیں وہ لحاظ، اخلاق اور روایات کی پاسداری کرتے ہوئے رشتوں کو چھوٹی، پتلی اور موٹی لڑکی ہونے کی وجہ سے کم از کم
نہیں ٹھکراتے۔
شہروں میں تو لڑکیاں رشتہ دیکھنے آنے والوں کے لیے بس چائے پلانے والی چلتی پھرتی ریسٹورنٹ بن جاتی ہیں۔ نیٹ فلکس کے
انڈین میچ میکنگ شو پر لوگوں میں ایک صارف نے کمنٹ میں لکھا ہوا تھاکہ ابھی تک میں نے 150 لڑکےوالوں کو چائے پلادی ہے۔
لیکن ابی تک چائے پینے کے بعد کھانے پر کوئی نہیں آیا۔
یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ انسان اپنی مرضی اور پسند کے مطابق شادی کرنے کے لیے بااختیار ہے لیکن میرے خیال میںاس
بااختیاری میں ایک عشت دار شہریاور فرد ہونے کی حیثیت سے ہر انسان کو تھوڑی سی ذمہ داری کامظاہرہ بھی کرنا چاہیے اور لوگوں
کو محض ان کی ظاہری شخصیت کی بنیاد پر رد نہیںکرنا چاہیے۔
رشتوں کو آسان بنانا چاہیے تاکہ ہر ضرورت مند کی مدد ہوسکے اور ہر گھر میں بیٹھی ہوئی بیٹی بیاہی جاسکے۔