فلورنس نایٹ انگیل، نام تو آپ نے سُنا ہو گا ۔ آج سے تقریبا دو سو سال پہلے اٹلی میں پیدا ہونے والی ایک لڑکی جس کو گڑیوں اور کھلونوں سے کوئی غرض نہ تھی وہ کچھ اور کرنا چاہتی تھی کچھ ایسا ہے جو اسے خود بھی پتا نہیں تھا وہ خود کی تلاش میں لگی رہی اور پھر ایک دن اسے کریمیا میں جنگ چھڑ جانے کی خبر ملی
جہاں بے پناہ فوجی زخمی ہو رہے ہیں اس نے دل میں سوچا کہ شاید یہی وہ موقع ہے جس کی اسے تلاش تھی
اس نے وہاں جا کر زخمی سپاہی بھائیوں کی مدد کرنے کا عزم کیا اس نے اپنے گاؤں سے کچھ لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے لیا
اس نے اُن کو ابتدائی
ٹریننگ دینا شروع کی۔ اس نے اُن کو بتایا کہ صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے زخمی سپاہیوں کے زخم محبت اور پیار سے بھرے جا سکتے ہیں ۔ وہ میڈیکل ٹرمز کے بارے میں آگاہ تو نہ تھی لیکن اس کی محبت اور انسانیت کے جذبے نے سپاہیوں کو دوبارہ زندگی دینے کا عزم کر لیا تھا
وہ گھر سے نکل کھڑی ہوئی
جنگ کے میدان سے زخمی سپاہی آتے جاتے تھے اور وہ ان کی مرہم پٹی کے علاوہ ان کے دل کے درد کو اور اپنوں سے دور ہونے کے غم کو بھی کم کرنے میں لگی رہی۔ وہ لیڈی ود لیمپ کے نام سے مشہور ہو گئی تھی کیونکہ رات کو جب سب سو جاتے تھے تو وہ لالٹین ہاتھ میں لیے مریضوں کے وارڈ میں چکر لگاتی رہتی تھی اور کسی مریض کو جاگتا دیکھ کر اس کے ساتھ بیٹھ کر دکھ بانٹتی تھی
آج جب نرس ڈے بارہ مئی کو منایا جاتا ہے تو اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ فلورنس نائیٹنگیل نے ہی اس عظیم شعبے کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ نرسنگ کا شعبہ ایک مسیحائی ہے ۔ مریض دیکھنے کو تو ڈاکٹرز ہی کافی ہیں کیونکہ وہ دوا تجویز کرتے ہیں اور مریض کو صحت یاب ہونے میں مدد دیتے ہیں
لیکن اس دوا اور علاج کے علاوہ مریض کا علاج محبت میں ہے جو نرس جیسے عظیم شعبے میں ہے
اُس زمانے میں اس عورت نے اُس زمانے کا ایک انوکھا کام کیا اس زمانے میں کوئی بھی عورت سوائے شادی کے اور گھر بسانے کے اور بچے پیدا کرنے کے کسی اور کام کا نہیں سوچ سکتی تھی ۔ آپ بھی اپنے بند حصار سے نکلیں۔ معاشرے کی کی فرسودہ روایات کو شکست دیں ۔ پھر گھر بسانے کے علاوہ کچھ اور بڑا کریں جسے لوگ رہتی دنیا تک یاد رکھیں ۔
شادی ۔پی کے ایک ایسا ہی خواب دیکھتا ہے ۔ ہر عورت آگے بڑھے اپنی پسند سے شادی کرے اور کوئی بڑا کام کرے۔ آن لائن شادی کے پلیٹ فارمز اس چیز کو پروموٹ کرتے ہیں یہ آزادی نہیں حق ہے