جہیز کافی ہے، وراثت کی ضرورت نہیں
فاطمہ صحن میں خالی ہاتھ بیٹھی ہے ، اور اس کا چہرہ اس اذیت کی نمایاں نمائندگی ہے جو اس نے پچھلے چند مہینوں میں جہیز کافی ہے، وراثت کی ضرورت نہیں محسوس کی تھی۔ وہ اس کے صدمے سے باہر نہیں آ سکی جو اس کے ساتھ ہوا۔
چار مہینے پہلے ، اس نے ایک نچلے متوسط طبقے کے اصغر نامی شخص جو کہ واحد کمانے والا ہے سے شادی کی ، اس کی چار بہنیں اچھے رشتوں کی منتظر تھیں۔ اس کے میکے نے اسے کچھ سونا ، کچھ کپڑے ، کچن کا سامان ، فرنیچر اور کچھ الیکٹرانکس دیا تھا ، لیکن ان میں سے کوئی بھی چیز اس کے سسرال والوں کی بلند توقعات سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ وہ ایک جذباتی صدمے کا سامنا کر رہی تھی جس کی وجہ ایک یہ تھی کے وہ اپنے شوہر کے لیے ناکافی جہیز لائی اور دوسرا اس دن اس کے والد کی موت کی خبر بم کی طرح اُس پر گِری۔
اس کے والد کی موت کے تین دن بعد ، اس کے بھائیوں نے اس سے کہا کہ وہ جائیداد کے کاغزات پر دستخط کرے ، اُس کاغذ جس میں اسے اُس کی جائز جائیداد سے دستبرداری کا کہا جا رہا ہے۔ یہ اس کے لیے نہ صرف کاغذ کا ٹکڑا تھا بلکہ اس کے لئیے اپنی باقی زندگی اپنے لئیے مشکل ترین بنانے کا عندیہ تھا۔ یہ کاغذ اس کے لئیے جسمانی تشدد کی نوعیت بھی اختیار کر سکتا تھا۔
اگر وہ کاغذات پر دستخط کرتی ہے ، تو اسے جذباتی ، نفسیاتی اور ممکنہ طور پر اپنے شوہر اور اس کے خاندان کی طرف سے جسمانی تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ اور دوسری صورت میں وہ اس پر دستخط کرنے سے انکار کرتی ہے تو اسے اپنے بھائیوں کو مستقل طور پر کھو دینا پڑے گا اور خاندان کے تمام افراد سے سماجی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جب اس نے کاغذات پر نگاہ ڈالی تو اس کے چہرے سے آنسو بہہ گئے اور پھر انہیں اٹھایا ، جو اس کے بھائی نے اس کے سامنے پھینکے تھے جب وہ اس میں اپنے حصہ کے بارے میں بڑبڑائی تھی۔ اس نے اپنے لرزتے ہوئے ہاتھ سے اس پر دستخط کیے۔ آج اس نے اپنی تقدیر کا انتخاب کر لیا تھا ۔ اپنے بھائیوں کے لیے اپنی جائیداد چھوڑ دی تھی ،
یہ کہانی شادی پی کے نے نا مکمل نہیں چھوڑی بلکہ لوگوں کے لئیے اس میں ایک سبق چھوڑا ہے کہ وہ اس کو خود سے اخذ کریں اور خود فیصلہ کریں کہ نہ جانے کتنی فاطمہ کو اس عذاب سے گزرنا پڑتا ہو گا۔ اس کہانی میں ہم نے عورتوں کی وراثت کے بارے میں معلوماتی مہم پھیلانے پر زور دیا ہے۔