حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ اگر آج اس دور میں ہوتی تو آج کی عورت پر ہونے والے مظالم کے بارے میں ان کا کیا نظریہ ہوتا۔ حضرت خدیجہ ایک آزادانہ فیصلہ کرنے والی باہمت خاتون تھیں انہوں نے اکیلے اپنے والد کا بزنس سنبھالا اور اپنی پسند کی شادی کی جبکہ ان کے قبیلے والے ان پر زور دیتے تھے کہ وہ اپنے قبیلے کے اندر ہی کسی سے شادی کریں لیکن انہوں نے اس وقت تک انتظار کیا جب تک ان کو خود کو ئی اچھا نہیں لگا
انہوں نے بہادری کی ایک اور مثال قائم کی اور لوگوں اور معاشرتی رویوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی عمر سے 15 سال کم عمر سے شادی کی ۔ کیا یہ سب چیزیں آج کی عورت کو میسر ہیں ؟ کیا وہ اپنی مرضی سے بزنس کر سکتی ہے ؟کیا وہ اپنی مرضی سے اپنے خاندان والوں کو نظر انداز کرکے شادی کر سکتی ہے؟ کیا اپنے سے کم عمر مرد سے شادی کر سکتی ہے۔
اصل بات تو یہ ہے کہ ہاں وہ کر تو سکتی ہے لیکن اس کے آزادانہ بزنس کرنے پر اسے شتر بے مہار جیسے لفظ سننے کو ملتے ہیں اگر وہ اپنی مرضی سے شادی کرے تو اسے آوارہ اور بدچلن جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔
اپنی عمر سے کم عمر مرد سے شادی کرے تو اس پر عجیب عجیب فقرے کسے جاتے ہیں اور اگر زیادہ عمر کے آدمی سے شادی کریں تو اسے گولڈ ڈگر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
وہی سوال دوبارہ کرنا چاہوں گی کہ اگر یہاں خدیجہ رضی اللہ عنہ ہوتی تو کیا یہ باتیں پسند کرتی؟ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام عورتوں کو آزادی اظہار رائے کا حق دیا تھا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں اور مردوں کو نصیحت فرمایا کرتی تھی حضرت حفصہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے راز رکھا کرتی تھیں ۔حضرت عمر کے دور میں خواتین صحابہ مارکیٹ میں کمشنر کے طور پر تعینات تھی۔ بیٹی کے روپ میں فاطمہ رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بے پناہ عزت دی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عورت عزت آزادی اظہار رائے کے مستحق ہیں اگر اسلام کی بات کریں تو یہ ساری چیزیں ہمارے اسلام نے عورتوں کو دی ہیں۔ ہماری عورت اپنی پسند سے شادی اور اپنی مرضی سے اپنی زندگی گزار سکتی ہے۔